نوبل کے نام پر قومی حمیت کا سودا؟

نوبل کے نام پر قومی حمیت کا سودا؟

 نوبل کے نام پر قومی حمیت کا سودا؟

نوبل کے نام پر قومی حمیت کا سودا؟


دنیا کی تاریخ میں کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن پر قومیں برسوں شرمندگی اٹھاتی ہیں۔ پاکستان کی موجودہ “فارم 47” حکومت کا وہ شرمناک فیصلہ جس کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ جیسے جنگی مجرم، قابض اور قاتلِ اطفال کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا، ان ہی بدنما فیصلوں میں سے ایک ہے۔ اس لمحے ہر غیرت مند پاکستانی کا سر شرم سے جھک گیا جب ایک ایسے شخص کو عالمی امن کا سفیر بنانے کی کوشش کی گئی جس کے دامن پر فلسطینیوں، عراقیوں، شامیوں اور ایرانیوں کے خون کے چھینٹے ثبت ہیں۔


یہ محض ایک سفارتی چال نہیں بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ حکومت پاکستان نے فلسطین کی تحریک آزادی، مسجد اقصیٰ کی حرمت، بیت المقدس کے تشخص اور عالمی اسلامی مزاحمت کی تاریخ سے بغاوت کر لی ہے۔ یہ نامزدگی دراصل اس بات کی تصدیق ہے کہ ہم اب اُس ٹرمپ کو سلام پیش کرنے پر تیار ہیں جس نے نہ صرف اسرائیل کو ابراہم معاہدوں کے ذریعے مسلم دنیا میں تسلیم کروایا بلکہ فلسطینی ریاست کے امکان کو عملاً ختم کر دیا۔


یہی وہ ٹرمپ ہے جس کے دور میں امریکہ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ یہی وہ ٹرمپ ہے جس نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو قانونی قرار دیا۔ یہی وہ ٹرمپ ہے جس نے فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد بند کی، اور یہی وہ ٹرمپ ہے جس نے اسرائیل کو ایران پر حملے کے لیے اسلحہ، دفاعی نظام اور سیاسی تحفظ فراہم کیا۔ اگر آج ایران اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے، اگر مسجد اقصیٰ کے در و دیوار لرزاں ہیں، اگر غزہ کا ہر بچہ لاشوں میں تبدیل ہو رہا ہے—تو اس خون میں ٹرمپ کا ہاتھ رنگین ہے۔


اور اب ہم اس کے ہاتھوں میں امن کا نوبل تھما کر دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ یہ کہ ہم مظلوموں کے ساتھ نہیں، طاقتور کے در کے غلام ہیں؟ یہ کہ ہمیں غزہ میں بہتا خون نظر نہیں آتا، لیکن واشنگٹن میں دی گئی دعوتِ لنچ پر جھوم اٹھتے ہیں؟


ٹرمپ نے بھارت کو پاک فضائیہ کے ہاتھوں شرمناک انجام سے بچایا۔ اس کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ امریکہ اس وقت تک غیر جانبدار رہا جب تک مودی کی درخواست پر میدان میں کود کر بھارتی چہرے پر کالک مٹانے کی کوشش نہ کی۔ کشمیر کی بات ہو، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بات ہو، یا بھارت کی ریاستی دہشتگردی کی مذمت—ٹرمپ نے ایک بار بھی سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اور جنرل عاصم منیر کے ساتھ حالیہ لنچ کے بعد جو پریس ریلیز جاری ہوئی، اس میں بھی کسی “ثالثی” کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔


یہ فیصلہ دراصل اس سلسلے کی کڑی ہے جس میں قطر، امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک نے ٹرمپ کی مالی خوشامد کے لیے تحائف، سرمایہ کاری اور ذاتی فائدے پہنچائے۔ اب لگتا ہے پاکستان بھی اسی دوڑ میں شامل ہو چکا ہے۔ کچھ سفارتی کامیابی کی تلاش میں، کچھ عالمی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں محبت پیدا کرنے کی سعی لاحاصل میں، ہم نے اپنا تشخص، اپنی اسلامی وابستگی، اور اپنی نظریاتی اساس تک داؤ پر لگا دی۔


بطور پاکستانی، اور بطور ایک باشعور مسلمان، میں اس فیصلے کو مسترد کرتا ہوں۔ یہ نہ صرف فلسطین کے شہیدوں سے غداری ہے بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش ہے۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی جائے، اور قوم کو بتایا جائے کہ یہ تجویز کس کے مشورے پر، کس دباؤ کے تحت، اور کس مفاد میں دی گئی۔

Post a Comment

0 Comments